جو لوگ اس مرض میں مبتلا پائے گئے انہیں ڈبوں میں بند پھل یا ڈبہ بند دوسری غذائیں یا فاسٹ فوڈ کھانے کی عادت تھی۔ اس بنیاد پر یہ اخذ کیا جارہا ہے کہ شاید ایسی غذاو ¿ں کا زیادہ استعمال جن میں مصنوعی اشیاءیعنی کیمیکل کا اضافہ کیا گیا ہو کسی طور اس مرض کا باعث بنتی ہیں
سی لی آیک پتلی لمبی آنتوں کی ایک ایسی بیماری ہے جس میں آنت کے کچھ حصوں میں نقص پیدا ہوجاتا ہے جس سے غذا کے انجذاب کے عمل میں خلل پڑتا ہے ایسے افراد وہ پروٹین جس میں ظاہرہ گوند کی خاصیت یعنی گلیوٹن موجود ہو۔ مثلاً گندم جو یا اس کی دوسری اقسام یا ان کے ملاپ سے بنائے گئے اناج وغیرہ‘ لفافے جوڑنے والی گوند‘ ادویہ کے کیپسول یا ایسی ادویہ جن کا جز گلیوٹن بھی ہو‘ چکھ لیں تو اس سے انہیں اسہال اور قے آنے کی اتنی شدید تکلیف ہوتی ہے کہ ہسپتال میں داخلے کی نوبت آجاتی ہے۔ ایسا مریض منع شدہ غذائوں یا دوائوں میں سے کوئی ایک بھی استعمال کرلے تو آنتوں کی جھلی کے اندر جو خردبینی یا محسوس کیے جانے والے لمبے ابھار ہوتے ہیں وہ قوت مدافعت میں پیدا ہونے والے خلل کے متحرک ہونے سے تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ ان ابھارہ کو villi کہا جاتا ہے۔ ان کا بنیادی غذا کے انجذاب میں مدد دے کر اسے خون کا حصہ بنانا ہے تاکہ گردش خون سے توانائی پہنچانے والی غذا تمام بدن میں پہنچ سکے۔ اس مرض میں مبتلا افراد کسی نہ کسی مرض کا شکار رہتے ہیں اور ہمیشہ ہی کمزور دکھائی دیتے ہیں۔
سی لی آیک ایسی بیماری ہے جس میں مریض کا اپنا ہی قوت مدافعت کا نظام اس کا دشمن بن جاتا ہے۔ غذائوں سے حاصل ہونے والے وہ اجزا جو کہ بدن کو توانائی فراہم کرتے ہیں یہ ان کے کام میں خلل ڈال کر انہیں جزوبدن نہیں بننے دیتا۔ اس بیماری میں بدن کی ضرورت کے مطابق غذا کے اہم اجزا خون میں داخل نہیں ہوپاتے۔
یہ مرض موروثی بیماریوں میں سے ایک ہے جو کہ نسل در نسل ہے۔ کئی بار تو کسی خاندان میں یہ پہلی ہی مرتبہ چند وجوہ کی بنا پر ہوتی ہے۔ مثلاً شدید ذہنی دبائو کے زیراثر‘ کسی بھی شدید وائرس کے حملے کے نتیجے میں‘ حمل کے دوران‘ وضع حمل کے دوران یا کسی بھی آپریشن کے بعد۔ اگر بچوں کو ڈھائی سال کے بعد بھی ماں کا دودھ پلایا جائے یا اگر کچھ بیماریوں کا علاج لاپرواہی سے کیا جائے تو ان میں مبتلا افراد میں بھی یہ مرض پیدا ہوجاتا ہے۔ ذیابیطس‘ ٹائیفائیڈ‘ میعادی بخار‘ جگر کے امراض‘ سفید ریشوں سے متعلق امراض‘ گٹھیا اور چہرے کی جلد میں دق کے اثرات وغیرہ۔
سی لی آیک بیماری میں جلد پر چھالے بن جاتے ہیں جن میں شدید خارش ہوتی ہے۔ عموماً یہ کولہوں اور گھٹنوں پر ہوتے ہیں۔ اس تکلیف کو ڈی ایچ کہا جاتا ہے۔ نیز جو لوگ اس مرض میں مبتلا پائے گئے انہیں تازہ قدرتی غذا کھانے کی بجائے ڈبوں میں بند پھل یا ڈبہ بند دوسری غذائیں یا فاسٹ فوڈ کھانے کی عادت تھی۔ اس بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ شاید ایسی غذائوں کا زیادہ استعمال جن میں مصنوعی اشیاءیعنی کیمیکل کا اضافہ کیا گیا ہو کسی طور اس مرض کا باعث بنتی ہیں۔ کسی حادثے یا لڑائی جھگڑے میں یا اتفاقیہ طور پر چوٹ لگنے سے بھی یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے۔
اس مرض کی علامات کبھی ایک سی نہیں ہوتیں بعض میں براہ راست لمبی آنت کے لمبے بالوں یا انگلیوں جیسے ابھار میں تباہی کے باعث بدہضمی کی شکایت ہوجاتی ہے۔ بعض میں اسہال اور ناقابل برداشت پیٹ درد ہوتا ہے۔ چند کو اسہال اور قے کا عارضہ ایک ساتھ لاحق ہوجاتا ہے۔ کچھ میں چڑچڑاپن اور یاسیت ایک ساتھ نمایاں ہوتی ہے۔ اس بیماری میں بچوں میں چڑچڑاپن بہت بڑھ جاتا ہے۔ نیز پیٹ کا پھولنا‘ بار بار پیٹ کا درد اور مزمن اسہال‘ مستقل قبض‘ بسنتی‘ چربیلے شدید بو کے پاخانے‘ بغیر وجہ وزن کم ہوتے جانا یا بغیر وجہ وزن کابڑھ جانا‘ بلاوجہ تھکاوٹ‘ سرخ خلیوں کا کم ہونا‘ جس کی وجہ سے کمزوری محسوس ہو‘ ہڈیوں میں درد رہنا‘ معاشرتی رویوں میں تبدیلی‘ اعصاب کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے ٹانگوں میں جھنجھنا ہٹ‘ بدن میں تشنج‘ دورے پڑنا‘ خواتین میں وزن کم ہونے کے ساتھ حیض آنے میں بے قاعدگی‘ بار بار اسقاط حمل یا بانجھ پن‘ بچوں‘ بچیوں میں نشوونما کے اوقات کی مناسبت سے ظاہری اور اندرونی تبدیلیوں میں تاخیر‘ منہ کے اندر پیلے چھالے‘ دانتوں کا رنگ تبدیل ہونا‘ جلد پر خارش والے دھبوں کا ابھرنا وغیرہ بھی اس مرض کی علامات ہیں۔
اس کے علاوہ کئی دوسری علامات بھی پائی جاتی ہیں جن میں وٹامن بی کی کمی سے آنتوں کے فعل میں خلل کی بیماری‘ آنتوں میں خصونت یا ایک دوسرے میں ان کا کچھ حصہ پھنس جانا‘ پانچ سے دس فیصد منگول شکل کے ذہنی طور پر معذور بچوں کو بھی اس مرض میں مبتلا پایا گیا ہے۔
خون کی تشخیص سے علم ہوتا ہے کہ آٹھ اینٹی باڈیز معمول سے بڑھی ہوئی تو نہیں۔ پروٹین سے بنی ان اینٹی باڈیز کاکام بدن میں داخل ہونے والے نقصان دہ محرکات کو ختم کرنا ہے۔ ایک بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ مریض کو ٹیسٹ کروانے سے پہلے کچھ عرصے تک خالص گندم اور خالص جو کی روٹی کھلانا ضروری ہوتاہے۔ شاذو نادر ہی یہ ٹیسٹ منفی آتا ہے۔ اس کام کیلئے ماہر ڈاکٹر انڈواسکوپ نامی ایک اوزار کی مدد سے پتلی سے ٹیوب کو منہ کے ذریعہ پتلی لمبی آنت کے نقصان دہ حصے تک لے جاتا ہے اور بائی آپسی کے طریقے سے کاغذ میں لگائے جانے والے پن کے سرے سے ذرا بڑا ٹکڑا کاٹ کر خورد بینی امتحان کیلئے نکالتا ہے۔
طب جدید میں تو اس مرض کا علاج ادویہ سے ہو ہی نہیں سکتا کہ ابھی تک اس کی حتمی دو ا ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ ایک ماہر اغذیہ ہر مریض کو انفرادی علامات اور ٹیسٹوں کی روشنی میں اس کیلئے ایسی غذائیں تجویز کرتا ہے جن میں لوچ‘ لیس‘ گوند نما ہیت نہ ہو۔ ایسی غذا کے دو سال تک استعمال سے بالغ مریض اس قابل ہوجاتے ہیں کہ انہیں جو غذا منع کی گئی تھی وہ اسے بھی استعمال کرسکیں۔ البتہ بچے چھ ماہ بھی مشکل سے ایسی غذائیں کھاپاتے ہیں۔ بڑوں یا بچوں میں دانت کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے وہ دوبارہ سفید نہیں ہوپاتے۔
مریض کو جو غذائیں کھانے کی اجازت ہے اس میں تازہ گوشت‘ مچھلی‘ چاول‘ پھل اور سبزیاں (اروی کے علاوہ) شامل ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بعض حالتوں میں پکے ہوئے جو نقصان نہیں دیتے۔ مغربی ماہر صحت اس بیماری میں مبتلا افراد پر تحقیقات کررہے ہیںکہ جو میں گلیوٹن تو ہوتی ہے مگر انہیں کیوں نقصان نہیں ہوتا۔ شاید پکنے سے اس میں کوئی تبدیلی آجاتی ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 932
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں